Search

Thursday, May 8, 2014

Is This True or just a Drama

نائن الیون کے بعد امریکہ نے ملا عمر کے سامنے بھی دو ہی صورتیں رکھی تھیں: تم یا تو ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو۔ ملا عمر نے صاف کہا کہ ہم نہ تمہارے ساتھ ہیں نہ تمہارے خلاف ہیں۔ ہم حق کے ساتھ ہیں اور باطل کے خلاف ہیں۔ ان کو جنرل پرویزمشرف کے بھیجے ہوئے علماء نے بھی سمجھایا کہ ایک اسامہ بن لادن کے لیے پوری ریاست کو دائو پر لگادینا ٹھیک نہیں۔ مگر ملا عمر کی اخلاقی بنیاد مستحکم تھی، چنانچہ انہوں نے کہا کہ اسامہ کو حوالے کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ان کے خلاف ٹھوس شہادت پیش کی جائے، بصورت ِدیگر ہم اسلامی تعلیمات کی رو سے اپنے مہمان کو ہرگز امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ اقبال نے کبھی کہا تھا ؎
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
ملا عمر نے اقبال کے اس مثالیے یا Ideal کو 20 ویں صدی میں حقیقت بناکر دکھا دیا۔ لیکن جنرل پرویز امریکہ کی ایک دھمکی پر دبک اور پچک کر رہ گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی شخصیت کی اخلاقی بنیادیں یا تو موجود ہی نہیں تھیں، یا انتہائی کمزور تھیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ا گر جنرل پرویزمشرف امریکہ سے ’’تعاون‘‘ نہ کرتے تو امریکہ پاکستان کو واقعتاً پتھر کے دور میں واپس بھیج دیتا۔ پہلی بات تو یہ کہ جنرل پرویز نے امریکہ کے ساتھ ’’تعاون‘‘ نہیں کیا۔ وہ امریکہ کے لیے کرائے کے قاتل کا کردار ادا کرنے لگے، یہاں تک کہ یہ کردار برسوں پر محیط ہوگیا۔
دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ بہادروں کا ساتھ دیتا ہے۔ بہادر کمزور بھی ہو تو اللہ اسے قوی کردیتا ہے، اور بزدل طاقتور بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے کمزور بنادیتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

ads