کالا باغ ڈیم اور سچ کا شمسی جھٹکا
شمس الملک ہمارے ملک کے ایک ایسے گرین پروف شمس ہیں جو وطن عزیز پر چھائے ہوئے دروغ آلود آبی اندھیروں کو حقائق کی شمسی توانائی سے شکست آشنا کرنے کے لئے مسلسل جہاد کر رہے ہیں۔ اب جبکہ پورے پاکستان میں آبی آلودگی اور آبی قحط کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر اٹھنے لگا ہے جناب شمس المک کا جہاد بھی ایک بلند تر سطح سے روشناس ہو رہا ہے۔ پڑھے لکھے محب وطن پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس جہاد میں شامل ہو رہی ہے۔ حال ہی میں چیئرمین قوت اخوت عوام فورم نے شمسی حقائق پر مبنی ایک کتابچہ شائع کیا ہے جسے عوامی آگہی کیلئے مفت تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس کتابچے کو پڑھنے کے بعد قومی درد رکھنے والے ہر پاکستانی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ حقائق کی ان شمس ریزیوں کو دوسرے پاکستانیوں تک پہنچائے تاکہ آبی جھوٹ کی فراوانی کے آگے سچ کا بند باندھا جا سکے تاکہ سچ کے قحط کو فراوانی اور جھوٹ کی فراوانی کو قحط میں تبدیل کیا جا سکے۔
واپڈا کے سابق چیئرمین نے اپنی صدائے شمسی کو مفکر پاکستان علامہ اقبال کے الفاظ میں بندہ مومن کی اذاں قرار دیا ہے۔ آیئے اس شمسی اذان کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ یہ جھلک دیکھنے سے پہلے اپنا جگر تھام لیجئے ورنہ حقائق کا شمسی جھٹکا دل کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ مرض عشق کا نسخہ بڑا پرانا ہے
جگر کو تھام کے رکھو جو دل بچانا ہے
شمسی حقائق کے مطابق 1963ءمیں ورلڈ بنک کی تحریک پر عالمی شہرت یافتہ آبی ماہرین نے انڈس سپیشل سٹڈی کے نام سے ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی تھی اور اسے آنے والے برسوں کے لئے ایک ماڈل قرار دے کر کالا باغ ڈیم بنانے کی سفارش کی تھی لیکن نصف صدی گزرنے کے باوجود جھوٹے صوبائی پراپیگنڈوں اور بین الاقوامی سازشوں کی وجہ سے یہ ڈیم نہیں بن سکا۔ نتیجہ یہ کہ اب ہم ایک زبردست معاشی‘ برقی‘ آبی اور زرعی بحران میں پھنس چکے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ایک مستقل عذاب بن کر ہماری روزمرہ زندگی اور معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔ شمس الملک کی تحقیق کے مطابق اس وقت نیو کلیئر اور کوئلہ سے بنائی جانے والی بجلی کی پیداواری لاگت تقریباً ساڑھے پانچ روپے فی یونٹ‘ گیس سے بننے والی بجلی ساڑھے چھ روپے فی یونٹ فرنس آئل سے تیار ہونے والی بجلی ساڑھے سولہ روپے یونٹ ہے اور عوام تک پہنچتے پہنچتے یہ بائیس روپے یونٹ تک جا پڑتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تربیلا‘ منگلا اور غازی بروتھا سے حاصل ہونے والی آبی بجلی ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ میں تیار ہو جاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ بنائے جانے کے سبب جو بجلی فرنس آئل سے ساڑھے سولہ روپے فی یونٹ لاگت سے تیار کی جا رہی ہے۔ اگر اس میں سے ڈیموں سے تیار ہونے والی بجلی کی لاگت ڈیڑھ روپیہ کم کر دیں تو باقی پندرہ روپے بچتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم سے بارہ ارب یونٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ اب بارہ ارب کو پندرہ سے ضرب دیں تو یہ دل ہلا دینے والی حقیقت سامنے آتی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی عدم تعمیر کی وجہ سے پاکستانی قوم صرف بجلی کے کھاتے میں ہر سال 180 ارب روپے کا نقصان برداشت کر رہی ہے۔ اگر اس نقصان کو پاکستان کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ جگر خراش حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کا ہر شہری تقریباً ایک ہزار روپیہ سالانہ ایک ان دیکھا اور ان چاہا جرمانہ ادا کر رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم مخالف یہ کہتے ہیں کہ ڈیم بنانے سے فیڈریشن ٹوٹنے کا خطرہ ہے سوال یہ ہے کہ اگر فیڈریشن کے کروڑوں عوام کو سولہ روپے فی یونٹ کے بجائے ڈیڑھ روپیہ یونٹ بجلی ملنے لگے۔ ان کی زندگی سہل ہو جائے۔ گھر روشن ہو جائیں۔ صنعتی پہیہ چل پڑے۔ ٹیوب ویل خشک کھیتوں کو پانی مہیا کرنے لگیں۔ نہری پانی پہلے سے زیادہ ملنے لگے تو کیا فیڈریشن ٹوٹ جائے گی یا مضبوط ہو گی۔
یہ وہ سوال ہے جو لاجواب کرتا ہے۔
بہت سے صوبائی رہنما بڑے ڈیموں کے بجائے چھوٹے ڈیم بنانے کی وکالت کرتے ہیں۔ شمس صاحب بتاتے ہیں کہ گذشتہ پچاس ساٹھ برسوں کے دوران پاکستان میں 68 چھوٹے اور درمیانے ڈیم بنائے گئے ہیں جن میں پانی جمع کرنے کی اوسط صلاحیت 8000 ایکڑ فٹ فی ڈیم ہے اگر کالا باغ ڈیم جتنا پانی جمع کرنا ہو تو ہمیں 750 ڈیموں کی ضرورت ہو گی۔ نصف صدی میں 68 ڈیم بنانے کی رفتار کو دیکھا جائے تو مطلوبہ ڈیم بنانے کے لئے ایک صدی درکار ہو گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان 68 ڈیموں سے ایک میگا واٹ بجلی بھی حاصل نہیں ہو رہی جبکہ یہ سیلابی تباہی بھی نہیں روک سکتے۔ شمس الملک نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آبی بجلی نہ بنانے کی وجہ سے ملک کو گیس کے بحران کا بھی سامنا ہے کیونکہ 2009ءسے تقریباً 48 فیصدی گیس بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کی نذر ہو رہی ہے اور پاکستان گیس ذخائر سے یہ سرعت محروم ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سی این جی سٹیشن اور پھر گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے۔ جہاں تک صوبہ سندھ اور خیبر پی کے کے اعتراضات کا تعلق ہے انہیں بھی شمسی کتابچے میں ٹھوس دلائل کے جھٹکے سے غلط ثابت کیا گیا ہے۔ یہ کہانی پھر کبھی اور کالا باغ مخالف جھوٹ کا پردا چاک کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment