پنجابی
کی مشہور کہاوت کا ترجمہ ہے کہ کسی بے شرم شخص کی پشت پر درخت بھی اگ آئے
تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے یہی کہتا ہے کہ ” کوئی بات نہیں، یہ چھاؤں دے
گا “۔ یہ کہاوت سامراج کے ان انتہائی بے شرم اور ڈھیٹ فتنہ گروں پرعین پوری
اترتی ہے جو ہر دور میں اپنی کھلی کذب بیانی افشا ہونے اورامن و انسانیت
کے نہاں قاتل ثابت ہو کر بھی انسانی حقوق کے علمبردار اور امن گرد کہلائے
جانے پر مصر ہیں۔ دنیا میں امن کے اس نام نہاد ٹھیکیدار کی خوں رنگ آدمی
خوری کی تاریخ صدیوں سے حشرانگیز ہے۔ صرف عالم اسلام کے نہیں بلکہ پوری
انسانیت کے بدترین قاتل امریکہ کی طرف سے عراق اور افغانستان میں جارحانہ
دراندازی کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرتے
ہی اس درندہ صفت و عیار عالمی بدمعاش نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے ارد گرد
کے جزائر اور آس پاس کے چھوٹے ممالک پر غاصبانہ قبضہ کرنا شروع کر دیا
تھا۔ چار سال تک جاری رہنے والی امریکی سول وارکے بعد ہی اس کے ان مذموم
سامراجی عزائم کا آغاز ہوگیا تھا جو آج تک جاری ہیں۔ اس ” خون آشام فاختہ ”
کو ان تاریخی حقائق سے کون شرم دلائے کہ اس کی “امن گردی” کے ہاتھوں نہ
اپنے گورے محفوظ رہے اور نہ مظلوم کالے۔ اس ” انسان دوست ” کے ظلم اور
بربریت سے نہ تو کیمونسٹ بچ پائے اور نہ ہی امت مسلمہ کے نہتے عوام۔ اس امن
پسند بادشاہ گر ہی نے سپین کی کالونیوں پر قبضے کیلیے جنگ لڑی اور پھر
فلپائن ،گوام سمیت کئی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ بیسویں صدی کا خونی
آغاز کرنے والا بھی یہی وہ ” معصوم بھیڑیا ” تھا جس نے فلپائن میں ہزاروں
افراد کو اپنا قبضہ مستحکم کرنے اور دہشت پھیلانے کی غرض سے بیدردی سے قتل
کر دیا۔ آج یہ عالمی بدمعاش پاکستان سمیت تمام ان ممالک کے ایٹمی پروگرام
کیخلاف سرگرم ہے جو اپنے تحفظ کیلئے ایٹنی طاقت کو اپنا آخری ہتھیار اور
بقا کا ذریعہء کل گردانتے ہیں۔ آج خود کو انسانی حقوق اور عالمی امن کا
چوہدری گرداننے والا یہی وہ عالمی غنڈہ ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران
جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرا کر نہ صرف اپنے سامراجی عزائم کا کھلا اظہار
کیا بلکہ ایک بھیڑیا صفت وحشی ریاست کے طور پر اپنی بھرٌور شناخت کرائی۔ اس
بربریت اور ہولناک آدم خوری کے چند سال بعد ہی اس درندے نے اپنی چوہدراہٹ
قائم رکھنے کی وحشیانہ دہشت پھیلانے کیلیے جزائر کوریا کا رخ کیا اور اپنے
نام نہاد امن پسند ورلڈ آرڈر کیلئے لاکھوں معصوم و نہتے کورین باشندوں کا
خون بہا دیا۔ لبنانی صدر کامیلی چیمون کی طرف سے فلسطینی مہاجرین کی
کارروائیوں کے خلاف اس سے مدد مانگی گئی تو اس وحشی کو مشرق وسطی میں بھی
فوجی مداخلت کا موقعہ ہاتھ آ گیا ۔ یہ آدم خور بھیڑیا ویت نام میں گھسا تو
تین لاکھ سے زائد مقامی باشندوں نے اپنی زندگیاں قربان کر کے اسے اور اس کے
اتحادیوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ اپنی بربرہت کی کالی تاریخ سے
چشم پوشی کر کے عالمی امن کا پیغام بر ہونے کے دعویدار اسی عالمی عیار کی
خون آشامیوں کی بدولت ہی بیسویں صدی تاریخ میں خونریزی اور قتل و غارت کی
صدی کے نام سے جانی گئی۔ اس صدی میں دو عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان بلا
قصور قتل و غارت کا شکار ہوئے، اسی صدی میں ویت نام کی جنگ میں امریکیوں کے
ہاتھوں لاکھوں ویت نامی مارے گئے۔ اسی صدی میں امریکی امن کے سفیروں کی
طرف سے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر “امن برانڈ ” ایٹم بم برسانے پر لاکھوں
جیتے جاگتے انسان یک لخت سوختہ و بے جان ہوگئے۔ اسی صدی میں برصغیر کی
تقسیم کے وقت لاکھوں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، اسی صدی میں
افغانستان پر روسی حملے کے بعد لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔ احباب بے لاگ
تجزیہ کیا جائے تو ان تمام خونی حالات و واقعات میں اسی فیصد سے زائد قتل و
غارت کا مرکزی کردار یا ذمہ دار امریکہ ہی رہا ہے ۔ اسی عالمی قاتل کی
بربریت و درندگی کی وجہ سے بیسیویں صدی کو تاریخ کی سب سے خونی صدی کہا گیا
لیکن اب تک کیسویں صدی کے صرف ابتدائی چودہ برس گذرنے میں ہی یہ حقیقیت
واضح ہونے لگی ہے اس صدی میں امریکہ کی جدید سفاکیت اور عالمی غنڈہ گردی سے
برپا ہونے والی ہولناک خونریزیوں کے سامنے گذری ہوئی صدی کے خونریز فسادات
اور قتل و غارت کی تاریخ بھی دھندلا جائے گی۔
احباب یاد رہے کہ اس عالمی فتنہ گر نے
اپنے مذموم عزائم اور بقائے فتن کیلئے”چور مچائے شور ” کی عیارانہ پالیسی
کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا ہے۔ میرے مطابق امریکی اخبار’’نیو یارک
ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والی یہ تازہ ترین رپورٹ بھی امریکہ کی روائتی کذب
بیانی اور ” دباؤ بڑھاؤ ” پالیسی کا تسلسل ہے۔ جس میں یہ احمقانہ دعوی کیا
گیا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکی حکام کو ایسے شواہد بھی ملے تھے
کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا، اسامہ بن
لادن کی اس علاقے میں موجودگی کے بارے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ اخبار کے
مطابق یہ حقائق امریکہ کیلئے اس لئےبھی انتہائی حیران کن تھی کہ وہ شجاع
پاشا کو طالبان کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ مخلص اور امریکہ سے سچا تعاون
کرنے والا آئی ایس آئی سربراہ سمجھتا تھا۔ امریکی اخبار کی اس رپورٹ میں یہ
بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسامہ کی پناہ گاہ سے ملنے والی تحریروں اور
کمپیوٹر ریکارڈ یہ بھی پتہ چلا تھ کہ اسامہ یہاں رہ کر اپنے تنظیمی دوستوں
کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کے اعلی کمانڈروں کے ساتھ مکمل رابطے میں رہتا
تھا۔ اخبار کی کذب بیانی کے مطابق آئی ایس آئی کے علاوہ کالعدم لشکر طیبہ
کے حافظ سعید اور افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر بھی اسامہ کی پناہ گاہ سے
مکمل واقف تھے۔ اخبار کے مطابق آئی ایس آئی کے ذمہ دار اہلکاروں کو اسامہ
کے چند ایک نمائندوں کے بارے بھی مکمل خبر تھی سو اسی وجہ سے اسامہ بن لادن
اپنے کسی بھی نمائندے پر مستقل بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں سے
ملاقات کیلئے سفر بھی کیا کرتے تھے۔ اس مضحکہ خیز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
2009 میں اسامہ ایبٹ آباد سے پاکستان کے دیگر قبائلی علاقوں میں بھی گئے
اور اس سفر کے دوران ان کے قافلے نے کئی فوجی چیک پوسٹیں بھی عبور کیں لیکن
آئی ایس آئی کا مکمل تعاون ہونے کی وجہ سے انہیں کہیں بھی روکا نہیں گیا۔
اس دوران انہوں نے ’’بابائے جہاد‘‘ کے نام سے مشہور طالبان کمانڈر قاری سیف
اللہ اختر سے بھی ملاقات کی۔ یاد رہے کہ یہ وہی قاری سیف اللہ اختر تھے
جنہوں نے 1998 میں اسامہ بن لادن اور 2001 میں ملا عمر کو امریکی بمباری سے
بچایا تھا۔ اور طالبان اور القاعدہ نے 2007 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر
بھٹو کے قتل کی ذمہ داری انہی کو سونپی گئی تھی۔ نیویارک ٹائمز کی
انفارمیشن پاور کے قربان جائیے کہ اس کے ” فرشتوں ” نے یہ مصدقہ اطلاع بھی
دی ہے کہ قاری سیف اللہ اختر نے اسامہ سے جی ایچ کیو پر دہشت گردانہ حملے
کیلئے معاونت بھی مانگی تھی جسے اسامہ نے مسترد کردیا تھا۔ اخبار کی ” غیبی
اطلاع ” کے مطابق اسامہ کا موقف یہ تھا کہ پاکستان کے خلاف لڑنے کے بجائے
امریکہ کے خلاف جہاد ایک عظیم تر مقصد ہے۔ سو اسامہ چاہتا تھا کہ امریکہ کے
خلاف جنگ کیلئے مجاہدین کی بھرتی کے عمل کو تیز کیا جائے۔ تاکہ افغانستان
سے انخلا کے بعد امریکہ سے جنگ کا سلسلہ وسیع کر کے سمندر تک پھیلا دیا
جایے۔ اخبار کے اس ” غیبی مفروضے ” کے مطابق اس عظیم جہاد کیلئے افغانستان ،
پاکستان ، صومالیہ اور بحر ہند کے وسیع و عریض خطے کو امریکی تنصیبات
کیخلاف القاعدہ کا اصل میدان جنگ بنانے کی حکمت عملی تیار کی گئی تھی ۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اسامہ بن لادن کے
معاملات کو دیکھنے کیلئے آئی ایس آئی میں ایک خصوصی ڈیسک تشکیل دیا تھا جو
حساس نوعیت کے فیصلے کرنے میں اس فوجی آمر کے ماتحت کام کرتا تھا اور اس کے
بارے میں صرف پاک فوج کے اعلی ترین قیادت ہی جانتی تھی۔ احباب جب بھی یہ
سامراجی عیاراسامہ بن لادن اور پاکستانی حساس اداروں کے بارے حواس باختہ
کذب بیانیاں کرتے ہیں۔ میرے زمانہء طالب علمی کا وہ جنونی دور تیزی سے میری
یادوں کے پردے پر کسی ڈاکومنٹری فلم کی طرح چلنے لگتا ہے، جب میں بھی اپنے
ہزاروں ہموطنوں کے ہمراہ ان افغان اورعرب نوجوانوں کے شانہ بشانہ امریکی
اسلحہ اٹھائے ہوئے روسیوں کے خلاف جہاد میں بر سر پیکار، ساری دنیا کےمسلم
مجاہدین کی طرح اس اسامہ بن لادن کو اپنا ہیرو مانتا تھا ۔ جی ہاں یہ اسامہ
ہی تھا جسے اس وقت کے “امریکی حلیف اسلامی مجاہدین” کے سرپرستِ اعلی
سامراج بہادر نے ہی عرب دیس سے بلوا کر مجاہدین کا سپہ سالارِ اعلی بنایا
تھا۔ صدر بش اور اوبامہ کے برخلاف ، اس وقت کے صدر صدر ریگن اور وائٹ ہاوس
انتطامیہ اسے افغانستان کے مظلوم عوام کے نجات دہندہ اور انسانیت کے خدائی
خدمت گار کا درجہ دیتی تھی۔ ہالی وڈ آج کے ان ” دہشت گرد” مجاہدین پرکروڑوں
ڈالرزخرچ کرکے فلمیں بنا رہا تھا اور ہر پاکستانی اور عرب نوجوان ،
مجاہدین کے ساتھی امریکی فلمی ہیروجان ریمبو بننے کے خواب دیکھتا تھا۔ یہ
وہی دور تھا جب امریکی خفیہ ایجنسیوں کے سب کرتا دھرتا، مغربی اورامریکی
میڈیا اسامہ بن لادن کی ڈیزائین کردہ زمینی سرنگوں اور جنگی نوعیت کے
تعمیری کاموں کی کسی مقدس آسمانی فرشتے کے کارناموں کی طرح والہانہ انداز
میں تشہیر کرتا تھا۔ روس کے پاؤں اکھڑنے کے بعد 1984 میں اسامہ بن لادن اور
عبدللہ عزام کی طرف سے مکتب الخدمت بنائے جانے سے لیکر1988 میں مصر میں
قائم ہونی والی تنظیم اسلامی جہاد بننے تک کسی امریکی کو اسامہ کی حساس اور
عسکری نوعیت کی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ مگر اس کے بعد نوے کی
دہائی کے آغاز میں عراق کویت جنگی ڈرامے میں امریکی کردار کے بعد اسامہ کے
خلاف سعودی شاہوں کی صدائے اعتراض کیوں بلند ہوئی اور اس کے ساتھ ہی امریکہ
کا من پسند ، چہیتا عسکری ہیرو اور مظلوموں کا نجات دہندہ اسامہ کیونکر
اسلامی دہشت گردوں کا لیڈر قرار پایا۔ اس سوال کا جواب آج تک نہ تو مغرب کے
نام نہاد مفکرین دے پائے ہیں اور نہ امریکی دانشوروں کا فتن ساز ٹولہ۔ وہ
سوڈان میں ہونے والی جہادی سرگرمیاں ہوں، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بم دھماکے ہوں
یا جنگ بوسنیا میں مسلم کش قتل ِعام میں دوغلے سامراجی کردارکے خلاف مسلم
مزاحمت کی داستان ِ خونچکاں، تاریخ کے ہر صفحے پرامریکہ کی دوغلی مسلم کش
پالیسی سیاہ حروف میں لکھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر امریکی انٹیلی جنس اتنی
باخبر، فعال اور متحرک ہے کہ اسے آئی ایس آئی کے اوسامہ سے تعلقات ہونے
اور اوسامہ کے قبائلی علاقاجات میں گھومنے تک کی اطلاعنت مل جاتی ہیں۔ تو
پھر ان باخبر امریکی اداروں کو اسامہ بن لادن کی افغانستان میں دوبارہ آمد
کا پتہ کیوں نہ چل سکا تھا۔ وہ کون سے جادوئی حالات اور پر اسرارواقعات سے
جڑے جادوگری کردارتھے جن کی غیبی مدد سے وہ سلیمانی ٹوپی پہنے 1996 میں
دوبارہ جلال آباد، افغانستان جا پہنچا۔ مگر جدید ترین جاسوسی آلات اور
مانیٹرنگ سسٹمز کے باوجود سب امریکی ومغربی ایجنسیاں بے خبر رہیں۔ جبکہ اس
وقت کے امریکی حکام اور تمام مغربی خفیہ اداروں کا دعوی تھا کہ گولڈ میہور
ہوٹل، ایڈنز پر حملوں اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بم دھماکوں میں ملوث ہر مجرم
اور اس کے نیٹ ورک کی نقل و حرکت تک کی مکمل ہسٹری ان کے علم میں ہے۔ جدید
نظام جاسوسی کی مدد سے ” ہنہ وقت باخبر ہونے کی دعویدار امریکی ایجنسیوں سے
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسامہ کی افغانستان میں دوبارہ آمد سے لیکر نائن
الیون کے حملوں تک امریکہ کے ان اداروں کی جدید ترین دور مار کیمروں سے لیس
سیٹیلائٹس کی جادوئی کوریج جام تھی جو امریکہ کے فول پروف دفاعی مونیٹرنگ
سسٹم کے ہوتے ہوئے بھی القائدہ نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دے دیا؟ اگر
امریکی عیاروں کی انٹیلی جنس اتنی مظبوط ہے کہ اسے آئی ایس آئی اور اسامہ
کے انتہائی خفیہ تعلقات کا بھی علم ہو جاتا ہے تو تف ہے اس کی نااہلی پر کہ
وہ بیس برس سے زائد عرصہ تک اس اسامہ بن لادن تک نہ پہنچ سکی جسے دو مرتبہ
پاکستان میڈیا کا ایک اینکر حامد میر بھی مل آیا تھا۔ احباب یہ امرکیوں کی
کذب بیانیوں کی ہسٹری اور انتہائی بری ساکھ ہی ہے کہ آج دس سال سے زائد
عرصہ گذرجانے کے باجود کوئی بھی ذی شعور انسان نائن الیون کے واقعات کی
امریکی تحقیقاتی رپورٹ ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ دنیا آج بھی گوانٹا نامو
اور ابوغریب کے امریکی ٹارچر سیلز میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد اور
شیطانی مظالم سے جڑے ہوئے دہشت گردی کے امریکی ساختہ افسانوں کی پر اسراریت
کے بارے سوال کرتی ہے۔ اور پھرعقل انسانی تھک ہار کر اس بات پر یقین کرنے
پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کویت عراق جنگ سے لیکر ورلڈ ٹریڈ سینٹر دھماکوں تک
اور حسنی مبارک کے قتل کی سازش سے لیکر افغانستان پر امریکی حملے، پاکستان
میں بلیک واٹرز کی ہر کاروائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جڑے ہر کردار
تک کی ہر داستان الف لیلیٰ ایک امریکی انجینئرڈ مسلم کش ڈرامہ اور عالم
اسلام کی سرکوبی کے بہانے کے سوا کچھ اور نہیں اور خدشہ ہے کہ ان حالات سے
زبردستی جوڑی گئی ہر اگلی کہانی بھی قتل مسلم کیلئے وائٹ ہاؤس میں تیار
کردہ ایک خود ساختہ بہانہ ہو گی۔ پاکستان کے عسکری اور انٹلی جنس اداروں نے
اس امریکی رپورٹ کو کذب بیانی اور قطعی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ
پاکستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا کسی شخص یا ادارے کو کوئی علم
نہیں تھا۔ اسامہ کی پاکستان میں موجودگی کا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ
شجاع پاشا سمیت کسی ذمہ دار کو کوئی علم نہ تھا۔ اس قسم کے من گھڑت الزامات
کا مقصد پاکستان اور اس کے قومی اداروں کی ساکھ مجروح کرنے کے سوا کچھ اور
نہیں۔ قارئین جانتے ہیں کہ امریکہ بازی گروں کی طرف شائع و تشہیر کردہ
ماضی و حال کے تمام خودساختہ ڈراموں کی ساکھ اور کذب بیانی پر مبنی رپورٹوں
کی شہرت انتہائی پراگندہ ہے۔ لیکن بہت کچھ نہ جانتے ہوئے بھی جاننے کا
دعوی کرنے والے ان ” جاسوس صفت” امریکیوں کے ایک بارے ایک سچی اور ناقابل
تردید حقیقت یہ ہے کہ ساٹھ فیصد امریکیوں کا باپ ان کی ماں کا قانونی شوہر
ہی نہیں ہوتا۔ اور پچاس فیصدی امریکی ایسے ہوتے ہیں جو مرتے دم تک اپنے باپ
کے نام اور شناخت ہی سے لاعلم رہتے ہیں۔ سو امریکی سی آئی اے کے صداکار
نیویارک ٹائم کے سرکردہ حضرات کو میرا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ اسامہ بن
لادن اور آئی ایس آئی کے خفیہ تعلقات کے بارے تحقیقات اور فتنہ انگیزیوں پر
وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے ان پچاس فیصد امریکیوں کو یہ جاننے میں مدد
دیں کہ ان کا حقیقی باپ کون ہے۔ فاروق درویش نیویارک ٹائمز سے اس سوال کا
حق رکھتا ہے کہ جس امریکی قوم کی نصف آبادی یعنی پندرہ کروڑ سے زائد لوگ
اپنے باپ کے نام اور شناخت سے ہی واقف نہیں وہ پاکستان کے حساس اداروں کی
خفیہ سرگرمیوں سے واقف ہونے کا دعوی کیسے کر سکتے ہیں؟
No comments:
Post a Comment